جمہوریت پر اعتراض یا اشرافیہ کے تحفظ کی جنگ؟—فکری زوال، مزاحمت اور نیا عالمی نظام

ڈاکٹر عبدالباسط

پاکستان میں جمہوریت پر تنقید کوئی نیا موضوع نہیں۔ کبھی اسے ناکام نظام کہا جاتا ہے، کبھی عوام کی اہلیت پر سوال اٹھایا جاتا ہے اور کبھی اشرافیہ کو ’’قدرتی حکمران‘‘ قرار دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سیاست عوام کا نہیں، چند خاص طبقات کا حق ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیانیہ صرف لبرل صحافیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ مذہبی اور نظریاتی حلقوں کے کئی دانشور بھی اسی راگ میں اپنی آواز شامل کر چکے ہیں۔

خورشید ندیم کے حالیہ کالم  سیاست کا خاتمہ (https://dunya.com.pk/index.php/author/khursheed-nadeem/2025-11-22/50915/92562142) اور اس کے تناظر میں سامنے آنے والے تجزیوں نے اس فکری تبدیلی کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ خورشید  ندیم کے کالم سے یہ تائثر ملتا ہے کہ  جمہوریت   کی جدوجہداب مزاحمتی قوت کا ایک ردعمل ہے۔بعض مغربی دانشور یہ فکر دے رہے ہیں کہ اشرافیہ نہیں بلکہ مفکرین ودانشور مل بیٹھیں اورنظام کی مکمل تبدیلی کا لائحہ عمل طے کریں وائل حلاق کی بھی یہی رائے ہے۔ (دیکھیے ناممکن ریاست کا آخری باب)لیکن چونکہ نظام کی تبدیلی کے کوئی pet rules طے نہیں ہیں اس لیے یہ تھیوری نامکمل ہے اورنئے عالمی نظام کے لیے استحصال کا نیا راستہ ہی ہموار کرسکتی ہے۔ اس لیے اس سے اتفاق کرنا ممکن نہیں۔ میں ذاتی طور پر مزاحمت کے جاری رہنے اورحقائق کی بنیاد پر حق وباطل کی جنگ میں حق کے غلبہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے امر کے ظہور پذیر ہونے تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے حق میں ہوں ۔اب، جبکہ  یہ کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں جمہوریت کا رومانس ختم ہو رہا ہے، سیاسی جماعتیں ناکام ہو چکی ہیں اور اب نئے سیاسی ماڈل کی ضرورت ہے، جس کی مثال چین اور سعودی عرب کی صورت میں دی جا رہی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا واقعی مسئلہ جمہوریت ہے—یا جمہوریت کا وہ نتیجہ جو کسی خاص سیاسی طبقے کے حق میں نہیں نکلتا؟

اشرافیہ کی ناکامی اور اصولِ شوریٰ کی نظراندازی

یہ بات حیران کن ہے کہ جو طبقات عرصہ دراز تک “امرھم شوریٰ بینھم” کو اسلامی سیاسی اصول کے طور پر پیش کرتے رہے، آج اسی اصول کی افادیت کو وقتی دلائل کی بنیاد پر معطل کرنے لگے ہیں۔ کیا یہ اصول اب وحی کے درجے جیسی اہمیت نہیں رکھتا؟ کیا اسے اس وقت تک درست سمجھا جائے گا جب تک اس سے اشرافیہ کو سیاسی فائدہ حاصل ہو؟ یہی علمی عدم دیانت ہمارے فکری بحران کی سب سے بڑی نشانی ہے۔جمہوریت کی ناکامی کا ماتم کرنے والوں سے سوال یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت حقیقتاً کب نافذ ہوئی؟ انتخابات کی صورت میں بھی اگر اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ، موروثی طاقت اور دولت اجتماعی فیصلوں کو یرغمال بنا لیں تو ناکامی جمہوریت کی نہیں، ادارہ جاتی خیانت کی ہوتی ہے۔

چین اور سعودیہ کی مثال—لیکن کیسے؟

اکثر دانشور چین اور سعودیہ کی ترقی کو دلیل بنا کر کہتے ہیں کہ جمہوریت ترقی کا واحد راستہ نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست، مگر تصویر مکمل نہیں۔ ان ممالک کی سیاسی ساخت شخصی خواہش کے بجائے ایک نظام، آئینی سوچ، سخت احتساب اور کردار کی شرط پر قائم ہے۔ وہاں ریاستی اختیارات کے ساتھ ریاستی نظم بھی موجود ہے، اور سب سے بڑھ کر:

  • وہاں کرپشن محض جرم نہیں، ریاست دشمنی ہے؛
  • سزا محض مقدمہ نہیں بلکہ انجام تک پہنچتی ہے؛
  • حکمران طبقات کردار اور نظم کے کم از کم معیار پر پورے اترتے ہیں۔

پاکستان میں طاقت کے مراکز، عوام کے خون پسینے سے پروان چڑھنے والی اشرافیہ اور کرپشن کے سیاہ ریکارڈ کے ساتھ اگر ترقیاتی ماڈل تشکیل دیں تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج ہمارے سامنے ہے—کھوکھلے دعوے، قرضوں کا بوجھ اور اداروں کا انہدام۔

برصغیر کی حقیقت اور جمہوریت کا انتخاب

مفکرِ پاکستان اور بانیِ مملکت نے جمہوریت کو کسی مغربی غلامانہ تقلید کے طور پر نہیں اپنایا تھا، بلکہ برصغیر کی تہذیبی، سماجی اور سیاسی ساخت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے ناگزیر حقیقت سمجھا تھا۔ یہ خطہ متنوع، مختلف اور تہذیبی رنگوں سے بھرپور ہے۔ ایسے معاشرے میں اجتماعی شرکت اور دستوری اتفاقِ رائے کے بغیر کوئی نظام پائیدار نہیں رہ سکتا۔لہٰذا جو لوگ آج جمہوریت کے خاتمے کا بیانیہ پیش کر رہے ہیں، وہ درحقیقت برصغیر کی ساخت سے لاعلم یا دانستہ صرفِ نظر کے مرتکب ہیں۔

مفکرین کا نیا نسخہ—اور اس کا خلا

بعض جدید مفکر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اب اشرافیہ نہیں بلکہ دانشور، مفکر اور اہلِ علم مل کر نئی سیاسی ساخت ترتیب دیں۔ یہ خیال نیا نہیں بلکہ وائل حلاق سمیت بعض علمی حلقوں کی سوچ یہی ہے۔ مگر یہاں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ:

  • نیا نظام کیا ہوگا؟
  • اس کےاصول کیا ہوں گے؟
  • اس کی تشکیل کا حق کس کے پاس ہوگا؟
  • عوام کی شرکت کس حد تک ہوگی؟

جب تک ان سوالوں کا جواب نہیں دیا جاتا، ایسا بیانیہ علم سے زیادہ نظریاتی رومان رہ جاتا ہے—اور استحصال کا راستہ مزید وسیع بھی کر سکتا ہے۔

عالمی نظام کی نئی ترتیب اور ابھرتی ہوئی آمرانہ حقیقت

ڈاکٹر طاہر القادری نے کچھ عرصہ قبل پیش گوئی کی تھی کہ دنیا میں جمہوریت کمزور اور ڈکٹیٹرشپ مضبوط ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی سیاست پہلے ہی بڑی طاقتوں کے خفیہ مراکز کے احکامات پر چل رہی ہے۔ اب فرق صرف اتنا ہے کہ:

  • پہلے فیصلے پردوں کے پیچھے ہوتے تھے؛
  • اب بڑی طاقتوں کو سامنے آنا پڑ رہا ہے؛
  • عالمی حکمران طبقات خود کو فیصلہ ساز کے طور پر ظاہر کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی اشرافیہ جمہوریت سے اکتاہٹ کا شکار ہے—کیونکہ جمہوریت مفادات کے آگے بند باندھتی ہے۔ لندن، امریکہ اور یورپ کے حالیہ انتخابات اور جمہوری فیصلوں نے ثابت کر دیا کہ عوام ابھی بھی طاقت رکھتے ہیں۔ یہی چیز عالمی و مقامی استعمار کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

یہ کشمکش ختم نہیں ہوئی—بلکہ مقابلہ باقی ہے

میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جنگ اصل میں نظام اور انسان کے وقار کی جنگ ہے۔ جب تک:

  • حق و باطل کی کشمکش جاری ہے،
  • مزاحمت زندہ ہے،
  • آوازیں اٹھ رہی ہیں،

اس مسابقت  کا فیصلہ چند گروہوں یا عالمی مراکز کے اشاروں پر نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت کے خاتمے کا بیانیہ دراصل مزاحمتی قوتوں کو مایوس کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ وہی کرتا ہے جو کھڑا رہتا ہے—جس کے پاس دلیل بھی ہو اور کردار بھی۔ہمیں اس مزاحمت کو جاری رکھنا ہوگا، تاوقتیکہ امرِ الٰہی حق کے غلبے کو آشکار کر دے۔ دلائل کے ساتھ، کردار کے ساتھ اور تاریخی معنویت کے ساتھ۔ ہمیں نظام بدلنے کے لیے سب سے پہلے موجود ہ نظام کی حقیقت سے پردہ اٹھانا ہوگا(اس سلسہ میں سب سے زیادہ مفید موجود ہ نظام کے تحفظ کے لیے تبدیلی کے نئے بیانیے کے حامی مفکرین کی تحقیقات ہوسکتی ہیں)اسی نظام کا حصہ بن کر اس کی تبدیلی کا خواب دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔ نظام کی تبدیلی  کے لیے متبادل نظام کا حقیقی شعور اور اس کے اطلاق کے تاریخی تسلسل کو سمجھنا ناگزیر ہے اوربرصغیر پاک وہند کے تناظر میں اس کا حقیقی شعورشیخ احمد سرہندی کے کردار اور فکر ولی الہیٰ (شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ)کے فہم سے ممکن ہے۔عالمی سطح پر   تاریخی تسلسل کو پیش نظر رکھا جائے تو اس کی بنیادیں، امام اعظم ابوحنیفہ کے سیاسی شعور سے وابستہ ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending