شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ نے ازالة الخفا کی جلد سوئم  میں مقصد دوئم کی تفصیل میں حضرات خلفاء راشدین کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ جس کے مطابق  صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کرنا سب سے اہم وصف تھا۔ اللہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جووعدے کیے وہ اصحاب کے دور میں پورے ہوئے گویا عہد خلافت عہد نبوی کاہی فیضان اورتسلسل تھا۔ اسی لیے وہ خلفائے برحق کہلائے۔ اورحقیقتا چونکہ یہ سب کمالات نبوی کا کرشمہ تھے اس لیے خلافت انہی پہ ختم ہوئی  تاہم اس کے اثرات بطور نظام پورے مسلم معاشرے پر عرصہ دراز تک قائم  رہے اس لیے بعد کے ادوار کو بھی خلافت سے منسوب کیا جاتا ہے یعنی بنوامیہ تاعثمانیہ۔  مابعد ادوار میں تاحال امت مسلمہ عہد خلافت راشدہ کے احیاء اوراس مثالی دور کی متلاشی ومنتظررہی لیکن نہ ان لوگوں نے واپس آناتھا نہ اس مثالی نظم مملکت کااحیاء ہوناتھا اس مثالی دورکی نقالی کاایک ہی طریقہ تھا کہ ان عظیم لوگوں کی اتباع کی جائے  اورجوجتناان کی اتباع کرے گاوہ اتنا ہی زیادہ منظم معاشرے کے احیاء میں اپناکرداراداکرے گا۔

قرون اولیٰ کے مسلم معاشرے ہم سے اس لیے بہتر تھے کہ وہ نظام خلافت کے احیاء کے لیے مخلص تھے اوراصحاب پر مکمل اعتماد رکھتے تھے لیکن معاصر مسلم معاشرے اس حد تک فرسودہ خیالات اوہام وشبہات اورخرافات میں گھر چکے ہیں کہ اصحاب نبی علیہم السلام کو ہی نشانہ بنا لیا ہے بہتان تراشی الزامات کی طویل فہرستیں بن رہی ہیں جن میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ کیا نبی آل نبی اوراصحاب نبی سے وفاداری اسی کانام ہے کہ بے بنیاد نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے انہی معزز ین ومقدس ہستیوں کے نام سے گروہ بندی وافتراق کو ہوادی جاٸے۔ ہرگز نہیں یہ تو دشمن دین کاایجنڈا ہےجس کے آلہ کار ہماری صفوں  میں بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح عہد خلافت میں موجود تھے۔ ان لوگوں نے ان کے شر سے دین کوپاک رکھنے کی قیمت چکائی اورہم اپنی ترجیحات کے لیے دین اورداعیان دین وراثان دین کی ناموس وتعلیمات کوقربان کیے جاتے ہیں۔

عہد خلافت راشدہ میں نظم مملکت ، تفسیر، حدیث اورفقہ یعنی سیاست،تعلیم وتربیت،عدالت اور نظم ریاست کے دیگر تمام شعبہ جات میں اہل عرب نے اہم کرداراداکیا ہے۔ عہد بنوامیہ میں عرب زیادہ ترنظم مملکت میں مصروف عمل رہے تعلیم وتربیت اورفقہ کے شعبہ جات دیگر اقوام کے مسلم معاشروں نے سنبھال لیے۔ عہد بنوعباس میں نظم ریاست کے ساتھ ساتھ دیگر تمام شعبہ جات میں عجمیوں نے خوب کرداراداکیا۔

عہد خلافت راشدہ کے معیارپر خلافت کو نظم مملکت کے لیے باقاعدہ ایک ادارہ بنادیا گیا اور یہ ایک منظم فکر اختیارکرگیا جو کتابوں کی زینت بنتاچلاگیا لیکن نام نہاد خلفاء وامراء کی عملی زندگیاں اس سے دورہوتی چلی گئیں۔ گویافہم دین کاتاریخی تسلسل اوراطلاق دین کاتاریخی تسلسل عہد خلافت راشدہ کے بعد الگ الگ حیثیت اختیار کرگیا کیونکہ جامع شخصیات ناپید ہوتی چلی گئیں یاحالات کے جبر نے انہیں منظم نہ ہونے دیا بہر حال مسلم معاشرے میں افتراق عمل اورگروہ بندی روزبروز بڑھتی چلی گئی۔ جس سے اجتماعیت برقرار نہ رہ سکی اورامت فکری وعملی طورپر زوال کا شکارہوگئی اور اس گروہ بندی کے سرپرستوں نے استعماری مقاصد کے حصول میں بھرپور کرداراداکیا۔ مختصر یہ کہ اجتماعیت کا جوشعور اصحاب نے نبی مکرم سے حاصل کرکے منتقل کیا اس کا احیاء ہی حقیقی معنوں میں تصور خلافت کی روح ہے اور اسی سے امت اپناتشخص بحال کرسکتی ہے۔

(خلاصہ لیکچر ازالة الخفاء،02جولائی  2025, وخطبہ جمعة المبارک 04جولائی 2025،استاذمکرم پروفیسر ڈاکٹرسعیدالرحمٰن،مرتب کردہ:عبدالباسط)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending