“ابراہیمی ڈھال” (Abraham Shield) منصوبہ: امن کے نام پر عالمی فساد — ایک قرآنی و سیاسی تجزیہ

تحریر: ڈاکٹر عبدالباسط

 (mrso.org.pk/basit.zafar@vu.edu.pk)

27.06.2025

مقدمہ:

آج مجھے ایک نئے اسرائیلی منصوبے کے بارے میں کچھ لکھنا ہے۔ اس سے متعلق اہم معلومات کسی بھی تحقیقی مضمون یا کتاب میں ابھی مرتب نہیں ہوئیں تا مختلف آن لائن فورمز بالخصوص اس معاہدے کی تفصیلات پر مبنی ویب سائیٹ پر موجود ہیں اورہم نے بھی اسی سے استفادہ کرکے ابتدائی طورپر کچھ معلومات یکجا کی ہیں اورقرآنی پیغام کی روشنی میں ذاتی تجزیے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے:

دنیا بھر میں “امن” اور “بین المذاہب ہم آہنگی” کے نام پر کئی معاہدے اور منصوبے پیش کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد بظاہر دنیا کو جنگ و جدل سے بچانا اور استحکام پیدا کرنا ہے۔ لیکن بعض منصوبے درحقیقت جیوپولیٹیکل تسلط، عسکری اتحاد اور مزاحمتی قوتوں کے خاتمے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک نمایاں منصوبہ “ابراہیم شیلڈ” (Abraham Shield) ہے جو اسرائیل اور اس کے حلیف ممالک کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔اس کی تفصیلات درج ذیل لنک پر موجود ہیں:

https://abrahamshield.org/en/plan

یہ منصوبہ اپنی ظاہری شکل میں ایک امن و استحکام کا پیکج معلوم ہوتا ہے، لیکن درحقیقت یہ “فساد فی الارض” کو ایک منظم شکل میں نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ اس مضمون میں ہم اس منصوبے کا تجزیہ قرآنی آیات، سیاسی پس منظر اور امت مسلمہ کی ذمہ داریوں کی روشنی میں کریں گے۔

تعارف اور تاریخی پس منظر:

“ابراہیم شیلڈ” منصوبہ 2024 میں اس وقت منظر عام پر آیا جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی شدید ترین سطح پر پہنچ گئی۔ 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نے اعلان کیا کہ ایران اور اس کے حلیف خطے میں اس کی سلامتی کو شدید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس تناظر میں اسرائیل نے ایک نیا دفاعی اتحاد تشکیل دینے کی تجویز دی، جسے “Coalition for Regional Security” کا نام دیا گیا، جس کا بنیادی خاکہ “ابراہیم شیلڈ” پلان کی شکل میں سامنے آیا۔

اس منصوبے کی بنیاد 2020 میں کیے گئے “ابراہیم معاہدات” (Abraham Accords) پر رکھی گئی، جن کے تحت اسرائیل نے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور بعد ازاں سوڈان کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ انہی معاہدات کو وسعت دے کر ایک نیا دفاعی اتحاد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ خطے میں ایران، حزب اللہ، حماس اور دیگر مزاحمتی قوتوں کو عسکری و سیاسی طور پر محدود کیا جا سکے۔

ارکان ممالک کی تفصیل:

منصوبے میں شامل ممالک:

  1. اسرائیل: منصوبے کا مرکزی معمار اور عسکری و انٹیلی جنس قیادت کا حامل ملک۔
  2. امریکہ: سفارتی، عسکری اور تکنیکی معاون، اسرائیل کا عالمی سرپرست۔
  3. متحدہ عرب امارات (UAE): اسرائیل سے مکمل سفارتی و تجارتی تعلقات رکھنے والا پہلا خلیجی ملک۔
  4. بحرین: اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والا دوسرا عرب ملک، دفاعی اشتراک میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔
  5. مراکش: افریقہ میں اسرائیلی اثر رسوخ کو وسعت دینے والا اہم شراکت دار۔
  6. مصر: اسرائیل سے دیرینہ امن معاہدہ رکھنے والا عرب ملک، جو غزہ کے انتظامات میں بھی شامل ہے۔
  7. اردن: مغربی کنارے اور القدس کے معاملات میں کلیدی کردار رکھتا ہے، اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے۔
  8. سعودی عرب: تاحال اسرائیل سے باضابطہ تعلقات نہیں، لیکن بیک چینل رابطے جاری ہیں؛ منصوبے میں اہم ممکنہ شراکت دار سمجھا جاتا ہے۔

مخالفت یا ہدف بننے والے ممالک:

  1. ایران: منصوبے کا بنیادی ہدف؛ اسرائیل اور امریکہ اسے خطے میں سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔
  2. حماس: غزہ میں اسرائیل مخالف مزاحمتی تنظیم، جسے منصوبے میں عسکری طور پر ختم کرنے کی بات کی گئی ہے۔
  3. حزب اللہ: لبنان میں ایران نواز مزاحمتی جماعت، جو اسرائیل کے خلاف عسکری طاقت رکھتی ہے۔
  4. شام: بشارالاسد کی حکومت ایران کے زیر اثر سمجھی جاتی ہے، اسے بھی الگ کرنے کا ہدف ہے۔
  5. یمن (حوثی): ایران نواز مزاحمتی قوت، جسے خطے میں عدم استحکام کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔
  6. روس اور چین: ان کی بڑھتی ہوئی معاشی و عسکری مداخلت کو بھی روکنے کی غیر اعلانیہ کوشش کی جا رہی ہے۔

امن کے نام پر عالمی فساد — ایک قرآنی و سیاسی تجزیہ

ہماری رائے میں یہ معاہدہ ”عالمی فساد”کی بنیاد ہے۔ ہمارے چند سنجیدہ سوالات حسب ذیل ہیں:

  • یہ معاہد امن کا ہے لیکن دعوت جنگ کی دیتا ہے، کیوں؟
  • اگر یہ سیاسی اوردفاعی منصوبہ ہے تواس کے لیے مذہبی اصطلاح کیوں استعمال کی جارہی ہے؟
  • چائنا ،پاکستان اورروس اسے کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، نیز چائنا اورروس اس معاہدے میں شامل کیوں نہیں ہیں؟ حالانکہ تاریخی تناظر میں چائنا ایک امن پسند ملک ہے اسے تو اس معاہدے کا لازمی حصہ ہونا چاہیے تھا؟ مزید یہ کہ وہ ممالک جو BRICKSمعاہدے کا حصہ ہیں ،ان میں انڈیا ایک اہمیت کا حامل ہے لیکن وہ بھی اس معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔ اگر یہ مذہبی منصوبہ ہے  اس لیے چائنا، روس اورانڈیا اس کا حصہ نہیں ہوسکتے  اورمحض مسلم، مسیح اوریہود اس کا حصہ ہوسکتے ہیں تو امن کو خطرہ صرف مسلم فکر سے کیوں ہے،مسیح ویہود ممالک ،گروپ یا تنظیمیں اس معاہدے کے مخالف اہداف کیوں نہیں ہیں ؟ گویا یہاں وہ مسلم جو مسیح ویہود کی بالادستی وجبر کو قبول کرلیں وہ اس کا حصہ ہوسکتے ہیں باقی نہیں چونکہ اس معاہدے کا استعمال جن ممالک وتنظیموں کے خلاف کیا جارہاہے وہ تاریخی طورپر نہ تو دہشت گرد رہے ہیں اور نہ ہی ظالم ۔ تو اس سے تو یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ مسیح ویہود فکری وعملی طورپر مسلم فکروعمل  پرتسلط برقراررکھنا چاہتے ہیں۔ اوراس قرآنی پیغام کی وضاحت ہیں کہ مسیح ویہود کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ اوریہاں قیام امن کے لیے ان سے موافقت مذکورہ قرآنی تعلیم کے خلاف نہیں ہے؟ نیز موافقت اختیار کرنیوالوں پر جمہورامت کا اعتماد بھی نہیں ہے  تو یہ ابراہیمی معاہدہ کم ازکم مسلم اتحاد کے لیے امت کو مجتمع کرنے میں کامیاب تو نہیں ہوسکتا۔ اس معاہدے کی تفصیل وقرآنی تناظر میں واضح موقف ذیل میں پیش کیا گیا ہے:

قرآنی بنیاد: امن کے نام پر فساد

اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ۝ اَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ
“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار! یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں، لیکن شعور نہیں رکھتے۔”(البقرہ: 11-12)

یہ آیت اُن افراد یا گروہوں پر منطبق ہوتی ہے جو اپنے ظاہری بیانیے میں اصلاح، امن اور خیر کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر ان کی عملی پالیسیوں سے دنیا میں بدامنی، استحصال اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔

ابراہیم شیلڈ” منصوبے کا حقیقی تجزیہ

اسرائیل کے منصوبے کے ظاہری دعوے اوراس کے پس پردہ حقائق میں فرق پایا جاتا ہے:

  1. ظاہری دعویٰ:
  • بین المذاہب ہم آہنگی
  • اسرائیل، عرب ریاستوں، امریکہ اور یورپ کے درمیان امن اتحاد
  • دہشت گردی (یعنی حماس، حزب اللہ، ایران وغیرہ) کے خلاف دفاع
  • درپردہ مقاصد:
  • خطے میں اسرائیلی عسکری و سیاسی بالادستی قائم کرنا
  • ایران، فلسطین، حماس، اور دیگر مزاحمتی قوتوں کو عسکری طور پر غیر مؤثر بنانا
  • سعودی عرب و دیگر خلیجی ممالک کو اسرائیل کے زیر اثر لانا
  • امریکہ و اسرائیل کے لیے مشرق وسطیٰ میں عسکری اسٹریٹجک گھیرا مکمل کرنا
  • چین و روس کی اثرپذیری کو محدود کرنا
  • مذہبی لفاظی کا استعمال:
  • حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کو بطور علامت استعمال کر کے منصوبے کو اخلاقی جواز دیا گیا
  • مسلمانوں، یہودیوں، اور عیسائیوں کے مشترکہ نبی کے نام پر اس منصوبے کو “روحانی اتحاد” ظاہر کرنا
  • درحقیقت یہ منصوبہ ابراہیمی ورثے کی توہین ہے، کیونکہ اس کی بنیاد عدل، توحید اور امنِ حقیقی پر تھی، نہ کہ استعماری مقاصد پر

عالمی و جیوپولیٹیکل تناظر

منصوبے میں شامل ممالک:

  • اسرائیل (مرکزی قوت)
  • امریکہ (سفارتی و عسکری سرپرست)
  • سعودی عرب، UAE، بحرین، مصر، مراکش، اردن (شریک عرب ریاستیں)

مخالف قوتیں:

  • ایران (اور اس کے اتحادی)
  • فلسطینی مزاحمت (حماس، جہاد اسلامی)
  • حزب اللہ (لبنان)
  • شام میں ایرانی اثرات
  • چین، روس (عالمی طاقتیں جو اسرائیل-امریکہ اتحاد کا متبادل نظام چاہتے ہیں)

یہ امن ہے یا پیشگی جنگ؟

  • منصوبہ preemptive war doctrine پر مبنی ہے: “اگر ہمیں خطرہ ہو، تو ہم پہلے حملہ کریں گے”
  • معاہدہ مخالف قوتوں کو سرنگوں کرنے کے بغیر امن کو ممکن نہیں مانتا
  • اس میں “de-Hamasification”، “نقدی نظام پر سخت نگرانی”، اور “فوجی مداخلت” کی تجاویز شامل ہیں

یہ سب وہ اقدامات ہیں جو دنیا کو ایک اور عالمی کشمکش کی طرف دھکیل سکتے ہیں — اور اس کا خمیازہ کمزور اقوام اور مظلوم طبقات کو بھگتنا پڑے گا

ابراہیم شیلڈ” منصوبے کے فکری و علمی حامی

“ابراہیم شیلڈ” منصوبہ ایک عسکری اور سیاسی تصور ہے، مگر اسے مختلف تھنک ٹینکس، مغربی دانشوروں، اور صہیونی مفکرین کی فکری بنیادیں حاصل ہیں۔ اس کی پشت پر جو فکری بنیادیں کارفرما ہیں، ان میں شامل ہیں:

1. Bernard Lewis

  • مشہور یہودی مؤرخ، جس نے اسلامی دنیا کو “Clash of Civilizations” کے تناظر میں دیکھا۔
  • اس کا تصور تھا کہ مسلم دنیا کو داخلی انتشار میں مبتلا کر کے ہی مغربی تسلط قائم رکھا جا سکتا ہے۔

2. Daniel Pipes

  • امریکی تھنک ٹینک Middle East Forum کے بانی۔
  • اسلامی تحریکوں (خصوصاً حماس، اخوان) کو دہشتگردی سے تعبیر کرتا ہے۔
  • “مسلم دنیا کو جدید بنانے کے لیے اسرائیل کا غلبہ ضروری ہے” جیسا نظریہ پیش کرتا ہے۔

3. Norman Podhoretz / Neocon Thinkers

  • Neoconservative اسکالرز جو امریکہ و اسرائیل کا مشترکہ عسکری ایجنڈا رکھتے ہیں۔
  • ان کے نزدیک Middle East میں “Managed Peace through Strength” ضروری ہے۔

4. Yossi Kuperwasser، Efraim Inbar

  • ان سب نے 2023-24 میں “Abraham Accords” کو عسکری اتحاد میں بدلنے کی حمایت کی۔ان کے مطابق:

“Iran is the real existential threat; Israel and Arab partners must form a security belt.

امت مسلمہ کا کردار اور لائحہ عمل

عصری تقاضوں کے پیش نظر امت مسلمہ کے کردار کا تعین جن اہم نکات کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے وہ حسب ذیل ہیں:

  1. فکری بیداری:
    1. امت کو ان “مذہبی الفاظ” کے پیچھے چھپے سیاسی مفادات کو سمجھنا ہوگا
    1. علمائے کرام، جامعات اور اسلامی ادارے امت کو حقیقی اصلاح اور فساد کی تمیز سکھائیں
  2. سفارتی اتحاد:
    1. مسلم ممالک کو اپنی پالیسیوں میں ہم آہنگی لا کر اسرائیل-امریکہ بلاک کا متبادل پیش کرنا ہوگا
    1. OIC کو غیر مؤثر بیانات کے بجائے عملی اقدامات پر آنا ہوگا
  3. میڈیا و علمی محاذ:
    1. ابراہیمی منصوبے جیسے “امن کے نام پر جنگ” کے بیانیے کو بے نقاب کیا جائے
    1. مسلم نوجوانوں میں تحقیق، تحریر، اور مکالمہ کی صلاحیت کو فروغ دیا جائے
  4. معاشی خودمختاری:
    1. عرب و غیر عرب مسلم ریاستیں اپنی معاشی خودمختاری کے بغیر کسی عالمی منصوبے کا سامنا نہیں کر سکتیں
    1. مقاطعہ (boycott) کی پالیسی کو ریاستی سطح پر اپنایا جائے

خلاصہ کلام

“ابراہیم شیلڈ” منصوبہ، جو ظاہری طور پر امن کا علمبردار ہے، دراصل وہی “فساد فی الارض” ہے جسے قرآن نے واضح طور پر مذمت کی ہے۔ اس منصوبے کا مقصد اسرائیل کو مرکزی قوت بنانا، مسلمانوں کی مزاحمت کو ختم کرنا، اور امت کو فکری و عسکری طور پر مغلوب کرنا ہے۔امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان منصوبوں کے پس پردہ چہروں کو پہچانے، قرآن کی بصیرت سے رہنمائی حاصل کرے، اور اپنے سیاسی، علمی، اور معاشی محاذ پر ازسرنو قیادت کا کردار ادا کرے ۔ یہی سچے ابراہیمی ورثے کی بقا کی ضمانت ہے۔جس کے علمبردار خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورجس کی امین ”امت مسلمہ”ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending