” خریدوفروخت میں فریقین کی شرعی ذمہ داریاں: ادراک وانجام دہی “
دوران لین دین بطورمسلمان ہماری کچھ شرعی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ جعفر موٹرز شوروم تونسہ شریف سے حالیہ ایک گاڑی خریدنے کا تجربہ ہوا مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری مارکیٹیں اور بازار کے لین دین اٹکل پچو، ذاتی مفادات اورلالچ کی وجہ سے شرعی طورپر کئی ایک سماجی ومعاشی برائیوں کی نظر ہوچکی ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق ہمارے لین دین میں جو شرعا ممنوع اوامر کارفرماتھے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے
- خریدار جب اپنی ضرورت کی چیز خریدنے کے لیے بائع پر مکمل اعتماد کرے اور اس شعبہ سے انجان ہو تو بائع کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں شریف النفس انسان کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اور ظلم و جبر سے اس کے ساتھ معاملات طے کیے جاتے ہیں۔
- جب خریدتے ہوئے کسی چیز میں عیب موجود ہو تو بائع چیز کی واپسی کا ذمہ دار ہوتا ہے اور شرعاً خریدار ”خیار عیب” کا حق محفوظ رکھتا ہے لیکن مارکیٹ میں اس شرعی قاعدہ پر دوطرفہ عمل کے مسائل حقوق العباد کی تلفی اور دیگر گناہوں میں اضافہ کا سبب ہیں۔
- تیسری صورت دوران خریدوفروخت انعقاد شرط کی ہے اگر بائع نے اس شرط پر چیز بیچی کہ میرا نفع maximum آپ دیتے ہیں تو یہی چیز بیچتے ہوئے جب آپ کہیں گے اسی قیمت پر بغیر اضافی نفع لیے بیچ دوں گا تو اس شرط پر بائع کو شرعاً عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اگر بائع مشتری کو دھوکہ دینے کے لیے بطور عرف یہ کہتا ہے تو مارکیٹ کا یہ عرف فاسد ہوتا ہے اور شرعاً قابل رد اور قابل گرفت ہے لیکن ہماری مارکیٹوں میں یہ فاسد عرف دیگر کئی سماجی برائیوں کا سبب ہے۔
- چوتھی صورت مشتری سے متعلق ہے کہ اگر اس نے رقم مقررہ مدت میں ادا نہ کی تو قرض خواہ سے معذرت کرکے مہلت لے اور قرض دار مقروض کو مہلت دے کر اللہ سے اجر لے۔ لیکن یہاں بھی دوطرفہ مسائل ہیں بعض مقروض جان بوجھ کر رقم کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں جبکہ بعض قرض خواہ مقروض کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور رقم تاخیر کی وصولی کو رقم میں اضافہ سے مشروط کرتے ہیں جو سود کی شکل اختیار کرتی ہے جو ناجائز و حرام ہے۔
- پانچویں صورت میں جب شوروم (بائع) خود خریدار سے چیز، اسے خسارہ دے کر واپس لے لے اور مقروض ہو جائے تو رقم کی ادائیگی اپنی مرضی سے کرتا ہے اور قرض خواہ اس کے ہاتھوں یرغمال ہو کر رہ جاتا ہے۔
ان مسائل کے حل کا ذمہ دار قاضی وقت ہوتا ہے لیکن عصر نو کا المیہ یہ ہے کہ کورٹ کا رخ مزید سماجی واخلاقی مسائل کا سبب بنتا ہے اس لیے شریف النفس لوگ صبروتحمل سے وقتی خسارے کو قبول کرتے ہیں غیرشرعی معاملات میں نہیں پڑتے جس کا نعم البدل اللہ تعالیٰ دے دیتا ہے۔
میری گزارش ہے کہ ہر فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور بطور مسلمان شرعی رہنمائی میں ہی اپنے لین دین مکمل کرے اس سے خریدوفروخت میں برکت ہوگی اور معاشرے میں خوشحالی اور اطمینان میسر آئے گا۔ جہاں ہم اپنے حقوق اورمفادات کے تحفظ کے خواہاں ہوتے ہیں وہاں فریق ثانی کے حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے وگرنہ حقوق العباد کی تلفی ،ظلم وجبر کے معاملات دنیا وآخرت کے خسارے کا سبب بنتے ہیں۔


Leave a Reply