”حدیث”اور”نفس دین”کا باہم تعلق

Dr. Abdul Basit

Basit.zafar@vu.edu.pk

ہمارے ہاں کچھ لوگ وائل حلاق کے اس لیے مداح  ہیں کہ انہوں نے استشراق پر نقد کیا ہے۔ مثلا وہ اپنے مضمون The authenticity of Prophetic Hadith: A Pseudo-problemمیں تصور حدیث سے متعلق استشراقی موقف پر نقد کرتے ہوئے صفحہ نمبر 17پرلکھتے ہیں:

It is quite possible that some hadiths of the sahih type were considered to belong to the mutilator category. What matters, in the final analysis is the fact that this last category is quantitatively insignificant, however it may be measured or calculated. It can be easily controlled and investigated. And surely, the modern western debate about authenticity would be considered absurd if its object were to be confined to a handful of such hadiths. That the debate was not so confined, and that it dealt in fact with the vast majority of the hadith is quite obvious and need not be demonstrated. If both the traditionists and the jurists -the two most important groups in the Study of hadiths – have acknowledged the precarious epistemological status of the literature, then we need not squander our energies in arguing about the matter of authenticity. We have been told that except for a score of hadiths, the rest engenders probability, and probability, as we know – and as we have also been unambiguously told by our sources – allows for mendacity and error. What more do we want?

یعنی وائل حلاق کے نزدیک مغربی علماء خواہ مخواہ حدیث کی استنادی حیثیت پر تحقیق کرتے ہیں۔ جبکہ مسلم علماء بذات خود اس کی صحت اورحیثیت پر مختلف آراء رکھتے ہیں۔ گویا کہ مسلمانوں میں جب یہ بذات خود اختلافی اورظنی چیز ہے تو اس پر شوروواویلا کی کیا ضرورت ہے؟ بظاہر اس مکمل مضمون میں  حلاق استشراقی نقطہ نظر پر نقد کرتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو مسلم تصور حدیث کی حجیت کی تشکیک میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔  اسی طرح ہمارے بعض لوگ بظاہر قرآن  کواس قدر اہمیت دے رہے ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک اگر حدیث نہ بھی ہوتو قرآن کی موجودگی سے ”نفس دین”پر ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ دوسری طرف ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات جب ثابت ہوجائے تو اس کا انکار کفر ہے۔ یعنی حجیت حدیث ان کے نزدیک ثابت ہے ، اسی طرح ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ محدثین نے اگرچہ اعلیٰ پائے کا تحقیقی کام کیا لیکن اس میں خطا کا احتما ل موجود ہے۔ اس لیے حدیث کی حیثیت مجروح ہوجاتی ہے۔ اسی لیے بعض لوگ اس فکر کو انکار حدیث پر بھی منطبق کردیتے ہیں۔ بہرحال یہاں فکر کے نتیجے کو مدنظر رکھ کر یہ سمجھنا بھی قرین قیاس ہی ہے۔

میری دانست میں یہ ایک غیر فطری اور لایعنی دعویٰ ہے بالکل ایسے ہی جیسے کہا جائے کہ  قرآن کی حفاظت کا ذمہ چونکہ اللہ نے لیا ہے اس لیے انسانی عمل کی ضرورت نہیں، یہ محفوظ رہنا ہی ہے۔ حالانکہ یہ واضح ہے  کہ قرآن کا جمع کیا جا نا بعد کے دور میں وقوع پذیر ہوا۔اگرچہ یہ حق ہے کہ قرآں کی حفاظت تاقیامت ہوکر رہے گی۔ لیکن اس کا فطری طریقہ یہی ہے کہ مسلمان ہی اس کے ذمہ  دار ہیں اور یہ عمل اللہ تعالیٰ  مومنوں کے ذریعہ ہی کرتا رہے گا۔ اسی طرح یہ کہ حدیث یا سنت نہ بھی ہوتو نفس دین پر کوئی اثر نہیں پڑتایا کوئی فرق نہیں پڑتا ایک غیر فطری اورلایعنی دعویٰ ہے۔ چونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے اسی طرح محدثین کی خدمات سے انکار بھی ممکن نہیں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت  بطور شارع وشارح جو قرآن نے خود متعین کی اورجو ایمان کالازمی جزو ہے اس کا اطلاق بھی اس کے بغیر ممکن نہیں اس لیے یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ حدیث کی موجودگی’‘نفس دین”کےلیے ضروری نہیں۔ بلکہ یہ دین کا بنیادی جزو ہے۔

یہاں اصل مسئلہ حدیث/سنت کی جمع وتدوین کے تاریخی عمل کی تفہیم کا ہے ، اوریہی مسئلہ قرآن کی جمع وتدوین میں بھی موجود رہاہے ۔  دوسری طرف اس تاریخی عمل کو قبول کرلیا جاتا ہے جبکہ حدیث کی تدوین کے تاریخی عمل کو تشکیک کی بنیاد بنایا جاتا ہے جو درحقیقت ”نفس دین” کی تفہیم میں بے جا انسانی مداخلت کی راہ ہموار کرتی ہے۔ حدیث کی جمع وتدوین کے تاریخی عمل کے مشابہ قرآن کی جمع وتدوین ہوئی ہے تو جب حدیث کو تاریخی دستاویز کہنے میں تامل نہیں کیا جاتا تو قرآن کو تاریخی دستاویز کہنے میں کون سی رکاوٹ ہے؟ حالانکہ استشراقی نقطہ نظر اسی بناء پر قرآن کی الہامی حیثیت کو مشکوک کرتا ہے۔ (دیکھیے معاصر مستشرق وائل حلاق کا نقطہ نظر)، ایسی مسلم ذہنیت اعجاز قرآن سے مغلوب ہوکر عقلی بنیادوں پر ”حجیت قرآن”کو تسلیم کرلیتی ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ عقل کا عاجز آنا ہوا ،ایمان لانا نہ ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ایمانیات کا تقاضا تو یہی ہے کہ ”کلام اللہ” اور”کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم” کو جدا کرنا اوران کی حجیت میں فرق کرنا یا نفس دین میں ان کی تفہیم کو بے وقعت سمجھنا مسلمان کے شایان شان نہیں۔ کلام اللہ کو یقینی درجہ حاصل ہے تو کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یقینی درجہ حاصل ہے ۔ فرق یہ ہے کہ ”کلام اللہ” جس زبان پر جاری ہوا وہاں تحقیق کی گنجائش وضرورت نہیں۔ لیکن کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن واسطوں سے ہم تک پہنچا ان کی تحقیق وتفتیش کا حکم ہے۔ اوریہی دین ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے کہ جسے آپ” نفس دین” کے لیے ضروری نہ سمجھیں ، وہ عمل نفس دین کا ایسا بنیادی جزو ہے جس کے بغیر دین پر عمل  مکمل نہیں ہوتا ۔

Tags:

Hadith, Nafs-e-Deen, Orientalist critique, Wael Hallaq, authority of Hadith, Islamic thought, Quran and Hadith, Muslim scholarship, compilation of Hadith, Quran preservation, Orientalism, understanding of religion, Islamic teachings


Keywords:

Hadith, Nafs-e-Deen, Orientalist perspective, Wael Hallaq, authority of Hadith, Islamic intellectual heritage, process of Hadith compilation, Quran preservation, Islamic beliefs, importance of Sunnah, Muslim scholars, Islamic tradition, principles of faith

  1. Hi, this is a comment. To get started with moderating, editing, and deleting comments, please visit the Comments screen in…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending