گلوبلائزیشن کے تناظر میں فلسفہ اخلاق کے تشکیل نو(اسلامی تعلیمات کی عملی تشکیل کا جدید پراجیکٹ)
ڈاکٹر عبدالباسط
Basit.zafar@vu.edu.pk
قوم نظریے سے تشکیل پاتی ہے۔ ہر اچھا نظریہ الہامی رہنمائی سے پروان چڑھتا ہے جو فکر بھی الہامی ضابطے کو ترک کردیتی ہے وہ تشکیک میں مبتلا ہو کر بالآخر منہدم ہوجاتی ہے۔ اعتماد اوریقین عمل کو ثبات عطا کرتا ہے اورعملی تطہیر ہی انسان کی عظمت وسربلندی کا سبب بنتی ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی منشاء ہے۔ اس سے کسی بھی سلیم الفطرت انسان کو مفر نہیں۔ حق یہ ہے کہ فطرت بھی انسان کے بس میں نہیں۔ اسی لیے اسی خالق کریم کی منشاء ہی ہر صورت میں مقدم رہتی ہے۔ جسے قرآن کے الفاظ میں وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ[1]سے سمجھا جاسکتا ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے عیاں ہے کہ انسان نے ہر دور میں اپنے مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔ لیکن حتمی کامیابی کے لیے اسے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو تسلیم کیے بغیر نجات کی کوئی صورت میسر نہ آئی۔ دورنہ جائیں ،عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی ایام پر نظر کریں حلف الفضول عرب معاشرے کا مسائل سے نجات کا ایک عملی اقدام ہی تو تھا۔وقتی حل کے بعد حتمی نجات عرب معاشرے کو اللہ کے دین کی بالا دستی کو تسلیم کیے بغیر نہ ملی اوریہ تہذیب مختصر عرصے میں ترقی یافتہ اقوام کو پیچھے چھوڑتی ہوئی دنیا کے لیے رہبر بنی۔ اس کے بعد مشرقی معاشرہ کبھی بھی فکری طورپر مذہب کی روشنی کو نظرانداز کرنے کی جسارت نہ کرسکا اورابھی تک مشرق ہی الہامی تعلیمات کی سربلندی کا علم تھامے ہوئے ہے۔
مغرب کی تاریخ اس کے برعکس نتائج پیش کرتی ہے مغرب نے روشن خیالی کی طرف اقدامات لیے تو سب سے پہلے جدیدیت کی راہ اپنائی روایت ومذہب کو خیر باد کہا اورانسانوں نے انسانیت کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔اللہ کی مرضی مغرب مسلسل مادی برتری کی طرف بڑھتا چلاگیا لیکن انسانوں کا مستقبل تاریک ہوتا چلا گیا۔ روشن خیالی نے دماغ اس قدر روشن کردئیے کہ انسان چاند پر جاپہنچا تو دوسری طرف اس قدر فاطر العقل ہوا کہ جانور وں میں اپنی تخلیق کے عناصر وعوامل کی تلاش کرنے لگا۔ اللہ کے احکامات کو چھوڑ کر اپنے احکامات کو خود وضع کرنے لگا اورایک کے بعد دوسرا مسئلہ درپیش آیا تو مکڑی کے جالے کی طرح کمزور انسانی قوانین ہر نئے مفکر ودانشور نے بدلنے کی رسم بنالی نہ تو صبرو ثبات باقی رہا نہ ہی علم ویقین کی فضا قائم رہی۔ تشکیک کی دنیا میں اس قدر آگے نکل گیا کہ جب چاہا، سمجھا ،مرد ٹھہرا اورجب چاہا عورت کا روپ دھار لیا اورجب خواہشات سے پیچھا نہ چھوٹا تو دونوں انواع سے انکار کیا۔ میڈیکل، انجنئیرنگ، سوشل سائنسز، عدلیہ، پارلیمنٹ ،تعلیمی اداروں گویا ہر طرف انسان انسانوں کے نظریہ سازو قانون ساز اورناقدوقانون شکن بن گئے ۔ انسان ہی اخلاق ساز اوراخلاق سوز بن گیا۔ پھر بھی مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ظلم، جبر،تشدد، افلاس، بیرزوگاری، چوری، بددیانتی، کرپشن، وسائل پر تسلط، قتل وغارت ،خودکشی، قانون شکنی ،فحاشی وعریانی،معاشرتی بے راہروی اوربغاوت عام ہوگئی۔ انسان اس قدر آزاد ہوگیا کہ یہ آزادی اس کے لیے کسی اخلاقی دائرے کے تعین میں ناکام ہورہی ہے۔ اب اہل مغرب دانشوروں کو ان مسائل کا حل چاہیئے اورانہیں فلسفہ اخلاق تشکیل دینا ہے۔ یعنی نیا مذہب تشکیل دینا ہے اوراس کے لیے اسلام سے استفادہ ان کے لیے ناگزیر ٹھہرا۔ حقیقتا اسلامی اخلاقی نظام ،قانونی نظام، معاشی ومشارتی اورسیاسی نظام کی بالا دستی تسلیم کیے بغیر اسلام سے استفادہ کے تمام فکر وفلسفے نظریاتی آمیزش کے داعی ہیں جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہونا۔اسی طرح ان مسلم دانشوروں کے لیے بھی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے جو اسلام کے اندر جدیدیت کی راہ تلاش کریں۔ اسلام منفرد ہے اوراس میں شراکت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تمہید کے حوالہ جات ومصادر کے لیے جدید مغربی ومسلم مفکرین، فلاسفہ، محقیقین اوردانشوروں کا لٹریچر رویو کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے جس پر مغربی ومشرقی مفکرین اپنے اپنے انداز میں کام کررہے ہیں۔ مجھے مابعدجدیدیت ،گلوبلائزیشن کے تناظر میں فطری اسلامی تصورات واعمال کی تشکیل کے اقدامات کا تعین کرنا مطلوب ہے۔ میں نے اہل مغرب میں وائل حلاق کا خصوصی مطالعہ کیا ہے چونکہ اس کی فکر کی بنیاد مراکش کے مسلم مفکرعبدالرحمٰن طہ کے افکار پر ہے اس لیے اسلام سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ وہ گلوبلائزیشن کے تناظر میں اسلام سے استفادہ کرتے ہوئے نئے فلسفہ اخلاق کی تشکیل کے حامی ہیں لیکن میں نئے فلسفہ اخلاق کی تشکیل پر یقین نہیں رکھتا میرے نزدیک اسلام اوراسلامی فلسفہ حیات (اخلاقیات) کو قبول کرتے ہوئے گلوبلائزیشن کے تناظر میں انسانی زندگی میں اسلامی تصورات واعمال کی تشکیل کے اقدامات کا تعین کرنا ہوگا ، مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوگا؟ اس پراجیکٹ میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین ومحقیقین کو مسلم ریسرچ سکالرز آرگنائزیشن میں خوش آمدید کہوں گا۔
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ
اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک الله نیکوں کے ساتھ ہے۔[2]
[1] سورۃ ھود،11:88
[2] سورۃ العنکبوت،29:69


Leave a Reply