Variation and Contradiction of Hallaq’s Ideas: A Special Study of the Evolution and Development of Law and State
حلاق کے نظریات کاتغیروتضاد: قانون وریاست کے آغازوارتقاء کاخصوصی مطالعہ
وائل حلاق کے تصورات میں تضاد نمایاں ہے اوران کے نظریات متغیر ومبنی بر تشکیک ہیں۔ ایک طرف وہ شرع اسلامیہ کو ماقبل جدیدیت سیاسی اثرات سے پاک قراردیتا ہے تودوسری طرف پہلی دوصدیوں سے ہی اس پر سیاسی وسماجی اثرات کے تصورات کی بنیاد ڈالتا ہے جہاں پہلے حلقہ علم کاتصور تھاجو مبنی بر علم واخلاق تھا حلاق کے مفروضے کے عین مطابق اسے قانون وقف نے سیاسی وسماجی اثرات کے زیراثر کردیا۔ حالانکہ نہ توقانون وقف کوئی نئی چیز تھی اورنہ ہی اسلامی قانون یاشریعت سیاسی وسماجی کردار سے خالی تھا اورعلم واخلاق تواس کا بنیادی عنصر ہی ہے۔ اب جہاں ریکارڈ میسر نہیں وہاں بتدریج ریکارڈ کی فراہمی کے تاریخی خدوخال اپنے مفروضے کے مطابق اخذ کرلیے جاتے ہیں حالانکہ زمان ومکان کے فرق سے تاریخی عدالتی ریکارڈ کی نوعیت کامنفردومختلف ہوناالگ ہے اوران کی عدم فراہمی یاغیرموجودگی الگ ہے۔ ہماری دانست میں تاریخ اسلامی اس کی مکمل تفصیل اپنی منفرد نوعیت کے مطابق محفوظ رکھتی ہے۔کہاں شرع سے عرف وروایت سے تعامل کا حلاقی دعویٰ جو محض عہداول کی خصوصیت تھا اورکہاں جدید ریاست میں جدید ریاستی قوانین سے تعامل پر طنزوتشنیع؟ یہ کھلاتضادہے۔حالانکہ شرع اسلامیہ اپنے طے شدہ اصولوں کے مطابق عرف ورواج سے تعامل کی خصوصیت رکھتی ہے اورہر دور میں اہل علم نے اس کی رعایت رکھی لیکن حلاق اسے بھی تشکیک کاذریعہ بناتا ہے۔ اسی طرح شیخ الاسلام کے کردار کوپوپ سے متشابہہ قراردینے کی کوشش کرتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ حلاق کے مذکورہ بالا تمام پہلووں سے تدریج وانسانی ارتقاٸی تصور کی وضاحت اظہر من الشمس ہے۔اسی طرح جدید ریاست واسلامی ریاست کے تصورات کاتضاد اورباہم تقابل کاغیرمتعلق ہونا بھی بالکل واضح ہے۔ جدیدیت کے تناظر میں یہ الزام کتناعجیب ہے کہ اسلام ایک قدیم مذہب ہے اورمسلمان قدامت پرست ہیں۔ اس سوال کے جواب میں دوبیانیے وجود میں آتے ہیں۔ جی ہاں! جدیدیت کی بدعات وخرافات کے تناظر میں مسلمان قدامت پرست ہیں اورجدیدیت کی گمراہی وبے راہروی کے لحاظ سے اسلام ایک قدیم مذہب ہے۔بعینہ قرآن وسنت کی قدیم روایت کے تناظر میں اجتہاد کاوجود مسلمہ امر ہے جس سے نٸے مساٸل کاحل تلاش کیاجاسکتا ہے لیکن جدیدیت کی لادین روایت کے تناظر میں اجتہاد کاجواز موجود نہیں جس سے تحریف و نفس پرستی کوفروغ ملے۔
گویا کہ یہاں کسی بھی عنصر کے لحاظ سے افہام وتفہیم یابحث ومباحثہ اوردلیل واثبات کے دوپہلو ہیں ایک پہلو جواز فراہم کرتا ہے اورمثبت سوچ کوجنم دیتا ہے یہی پہلو محمود ہے۔جبکہ دوسرا پہلو عدم جواز فراہم کرتا ہے اورمنفی سوچ کوجنم دیتا ہے یہی پہلوغیرمحمود وقابل تردید ہے۔ وائل حلاق کے جدید ریاست اوراسلامی ریاست سے متعلق خیالات مذکورہ بالاطرز پر دو پہلووں کے اعتبارسے زیربحث لانے کی ضرورت ہے ایک پہلو کے لحاظ سے اس کی فکر کامثبت پہلوواضح ہوگا جبکہ دوسرے پہلوسے منفی پہلو۔
آغازآفرنیش سے آج تک انسان جن ارتقائی مراحل سے گزرا،تہذیب، معاشرت،معیشت اورسیاست گوکہ ہر اعتبارسے ارتقاء عمل میں آیا نئے انسان نے قدیم ورثہ سے استفادہ کیا کچھ ترک کرناپڑا کچھ ضرورت کے مطابق نیااخذ کرناپڑا اورتاریخی ارتقاء کایہ تسلسل اب بھی جاری ہے۔انسانی تاریخ کی یہ وہ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ انسان کے زمین پر قدم رکھتے ہی اسے فکروعمل میں ہدایت کاپیغام اللہ کی طرف سے مل جاتا ہے اس کی روشنی میں نظریاتی وعملی ارتقاء فلاح وفوذ کی راہ ہموارکرتا ہے جبکہ اس کے برعکس آزاد وخودمختیار نظریاتی وعملی ارتقاء شر کی راہ ہموار کرتا ہے۔ آزادی وخودمختیاری کے بھی دوپہلو ہیں انسان کوالہامی تعلیمات نے جوآزادی ومختیاری دی وہ ایک عظیم نعمت ہے جواسے کائنات کامالک بناتی ہے اورسخرلکم مافی السموٰت ومافی الارض کاخوبصورت مژدہ سناتی ہے جبکہ آزادی وخودمختیاری کاایک تصور وہ ہے جوانسان نے خود کسی بھی الہامی واخلاقی تقاضے کو رد کر کے پروان چڑھایا۔ تواس تصورنے اسے پھر خواہشات کاغلام بنادیا۔ جدید دنیا مذہب بیزار عمل کے نتیجے میں جن غیراخلاقی افعال کی مرتکب ہوئیاورتباہی کی دلدل میں پھنستی چلی گئی وہ روزروشن کی طرح عیاں ہے۔
ان میں سے ایک تصورنظم اجتماعی کی نئی صورت تخلیق کرنے سے پروان چڑھا۔ قدیم طرز حکومت کی بھی مختلف شکلیں تھیں تاریخ انسانی میں نمرود بھی گزرااورفرعون بھی۔ سلطنت سلیمان علیہ السلام بھی قائم ہوئی اورنظم یوسف علیہ السلام کابھی دورآیا عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آیااورعہد جدید بھی ہمارے سامنے ہے۔ نظم اجتماعی کوآپ کوئی بھی نام دیں بہرحال وہ اچھایابراہردورمیں اپناایک وجود رکھتا ہے اچھا تب ہے جب الہامی تعلیمات اوراخلاقی داٸرہ کار کے اندرمحصور ہے اوربراتب ہے جب نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزادوخودمختیار ہے۔ توگویا یہ کشمکش توروزاول سے چلی آرہی ہے۔ وائل حلاق کایہ مقدمہ ہی درست نہیں ہے کہ جدیدریاست کوٸی نٸی چیز ہے اوراسے اسلامی بناناممکن نہیں۔ ریاست کی پیداواراستعماریت سے ہوٸی اوریہ شرع سے متضاد بنیادپراستوار ہوٸی۔ یہی نظم اجتماعی اگر اسلامی اصولوں پر استوار ہوتو یہ بہترین اخلاقی واصولی نظام میں بدل جائےگا۔ اسے بدیہی وخلقی قراردینااورجدیدریاست اپنی تخلیق میں آزادوخودمختیار ہے کی فکر تشکیل دینا سرےسے باطل ہے جدیدریاست نہ توخلقی چیز ہے بقول حلاق اگر خلقی ہے توخالق کون ہے،انسان بذات خود،تویہاں اصلاح انسان کی مطلوب ہوگی جس سے ریاست کی اصلاح خودبخود ہوجائے گی۔ یہ اخلاقی پیغام تو اللہ نے ہر انسان کی اصلاح کے لیے اپنے آخری الہامی پیغام میں دیدیا ہے۔ لیبلوکم ایکم احسن عملا کے خطاب سے کون ماوراء ہوسکتا ہے؟ کوئی بھی ذی روح نہیں۔گویاہمیں اصل کوسمجھ کراس کی اصلاح کی طرف آنا چاہیے ناکہ اجزاء کوخالق کل سمجھ کر اس کے سامنے سرنگوں ہوجائیں۔ ہماری رائےمیں دنیاجس طرف بڑھ رہی ہے یہ تو حقیقی اسلامی تصورات کے احیاء کادور ہوگا۔ جس میں متضادومخالف فکر خودعیاں ہوتی چلی جائےگی اورخلافت الارض کے وسائل میسر آتے جائیں گے۔ دیناسمٹ کررہ جاٸے گی اورایک ہی نظام ایک ہی نظریہ بقاکی منزل کاداعی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
تحریر
ڈاکٹر عبدالباسط
mrso.org.pk
14th August 2024.
نوٹ:ہماری کتاب وائل حلاق(شخصیت ونظریات:تعارف وتنقید) کاحصہ اول اریحابک سینٹر اردوبازارلاہور سے شائع ہوچکا ہے۔ منگوانے کے لیے درج ذیل نمبر پر رابطہ کریں0319.3831538:
بلاگز کے لیے وزٹ کریں blogs.mrso.org.pk:
Keywords:
وائل حلاق کے نظریات, اسلامی قانون کی ارتقاء, جدید ریاست کا تنقیدی جائزہ, شرع اسلامیہ اور جدیدیت, اسلامی ریاست کا تصور, ماقبل جدیدیت اور شرع, اسلامی فلسفہ اور ریاست, شریعت کا سماجی اثر, قانونی فکر اور تاریخی ارتقاء, جدیدیت کا اسلامی تنقید
Tags:
اسلامینظریات, #اسلامیفلسفہ, #قانونیارتقاء, #وائلحلاق, #جدیدریاست, #اسلامیقانون, #سماجیتنقید, #شریعتاورریاست, #تاریخاسلام, #جدیدیتاوراسلام
Keywords:
Wael Hallaq’s theories, evolution of Islamic law, critical analysis of the modern state, Sharia and modernity, concept of the Islamic state, pre-modernity and Sharia, Islamic philosophy and the state, social impact of Sharia, legal thought and historical evolution, Islamic critique of modernity
Tags:
Islamic_Thought, #Islamic_Philosophy, #Legal_Evolution, #Wael_Hallaq, #Modern_State, #Islamic_Law, #Social_Critique, #Sharia_and_State, #Islamic_History, #Modernity_and_Islam


Leave a Reply