فقہ وشرع کا حلاقی تصور:چنداشکالات کاتجزیہ
Hallaq’s Concept about Jurisprudence and Sharia: A Review of a Few Concerns
میرے کچھ مضامین سے بعض قارئین کواشکال پیداہوئے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وائل حلاق کاسطحی مطالعہ کیااوراس کی فکری بنیادوں کوسمجھنے میں غلط فہمی ہوئی اس لیے جب میں نے وائل حلاق کی کتب،مضامین،لیکچرز اورانٹرویوز سے اس کی درست فکر کاتعین کیاتوانہوں نے جوسمجھا ہواتھااس بنیاد پر مجھ سےانہیں اختلاف ہوا۔
ہمارے ہاں ایک بڑاطبقہ حلاق کااس لیے مداح ہے کہ انہوں نے اجتہاد کی راہ دکھائی ہے اورمستشرقین کے اس موقف کورد کیا ہے کہ اجتہادکادروازہ بند ہے بلکہ انہوں نے عصرحاضر میں اس کی ضرورت واہمیت مزید بڑھادی۔
گزارش یہ ہے کہ کیامسلم اہل علم اس دعوے کوقبول کرتے ہیں کہ اجتہاد کادروازہ بند ہوگیااوراجتہاد نہیں ہوسکتا تومیری تحقیق کے مطابق مسلم علماء اس دعوے کورد کرتے ہیں۔ توجوایک چیز ہمارے ہاں طے ہے تواس پر کسی مستشرق نے اپنے مستشرقین سے اختلاف کرلیا تواس سے کیافرق پڑتا ہے؟
اب اصل بات یوں ہے کہ کچھ متجددین جواجتہاد کےنام پرشرع میں تصرف کرناچاہتے ہیں ان کی راہ ہموار کرنے میں حلاق کی فکر کاکردار نمایاں ہوسکتا ہے اس لیے اس فکر کوجدت پسند طبقے میں خوب پذیرائی ملی۔
اب اصل حلاقی فکر اوراس پر میرے تجزیے سے جوغلط فہمی پیداہوئی وہ کیا ہے اوراس کی حقیقت کیا ہے؟اس کی وضاحت کرتا ہوں۔
میں نے بحوالہ یہ چیزیں تحریر کی ہیں کہ حلاق قرآن کوالہامی تسلیم نہیں کرتا بلکہ فکرانسانی کے ارتقائی تصورپر محمول کرتا ہے عین اسی طرح جس طرح فقہ۔۔۔۔۔۔۔ اوراسی کووہ شریعت سمجھتا ہے۔
جو لوگ فقہ کوانسانی کاوش سمجھتے ہیں اورفقہی احکامات کوشرعی احکامات سمجھتے ہیں اوراسے قرآن سے الگ علمی مصدر مانتے ہیں۔ بغیر تحقیق کیے کہ حلاق کاقرآن کے بارے یہی موقف ہے کہ وہ اسے واقعی منزل من اللہ نہیں مانتا انہوں نے مجھ سے بحث شروع کردی کہ شریعت فقہ اورقرآن الگ الگ ہیں کہ نہیں حلاق بالکل درست ہے کہ فقہ یاشریعت انسانی فہم کانتیجہ ہے۔
ان کے پاس محض اس سادہ طرزفہم کے حلاق کی کتب مضامین یاکسی بھی اورحوالوں سے کچھ بھی بطوردلیل موجود نہیں۔
میری ان سے گزارش ہے کہ ان کے فہم میں سادہ ساجو مفہوم ہے کہ شریعت بمعنی فقہ الہامی نہیں ہے اورحلاق کایہی موقف ہے اس میں توہم بھی اس کے ہمنوا ہیں لیکن ایسا نہیں ہے انہیں چاہیے یہ مزید وائل حلاق کوپڑھیں۔
اگر وہ قرآن کوبھی اسی طرز پہ شرع نہ سمجھتے ہوں جس طرح فقہ کوشریعت کہتے ہیں تو مجھ سے بات کریں اگر اس پر کچھ لکھاہوا ہے تومجھے استفادہ کے لیے دیں۔
ہماری تحقیق کے مطابق فقہ کوشریعت سمجھنا مسلم علماء کے ہاں bilateral رہا ہے۔ جب یہ وحی کاہی مفہوم ہے توشریعت وحی ہے اورجب یہ فقہی استدلال ہے تو یہ اجتہاد ہے۔
جبکہ میں بحوالہ یہ وائل حلاق کی کتب سے ثابت کرسکتاہوں کہ وہ قرآنی احکامات کے ارتقاء کوبھی فقہی ارتقاء پر محمول کرتے ہیں۔
جب وہ قرآن کوفقہی ارتقاء پر محمول کرتے ہیں تب حدیث سنت اجماع یعنی تمام مصادر شریعہ میں انہیں یہی طرز فکرنظر آتا ہے جس کانتیجہ یہی ہے کہ یہ فقہ یعنی شریعت ایک ارتقائی عمل ہے جو عہد نبوی ،عہد صحابہ ومابعد ایساہی رہا جدیدیت نے اس کارخ تبدیل کیا یہاں سے ایک نئی علمی جہت شروع ہوجاتی ہے جہاں حلاق شرع کو محدود ومقید فکروعمل کے طورپر پیش کرتے ہیں اوراس کی بنیادی وجہ استعماریت کوقراردیتے ہیں۔
میرے آنیوالے مقالہ جات ومضامین اورکتب ان موضوعات کومزید واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ
طالب دعا
ڈاکٹر عبدالباسط
Tags/Keywords:
Wael Hallaq, Fiqh, Sharia, Ijtihad, Orientalists, Islamic Law, Modernity, Islamic Studies, Divine Status of the Quran, Consensus, Hadith, Evolution, Sharia Commands, Islamic Jurisprudence, Scholarly Reasoning
وائل حلاق, فقہ, شریعت, اجتہاد, مستشرقین, اسلامی قانون, جدیدیت, اسلامی علوم, قرآن کی الہامی حیثیت, اجماع, حدیث, ارتقاء, شرعی احکامات, اسلامی فقہ, علمی استدلال


Leave a Reply