اسلامی نظام خلافت :جدید تعبیر وتشکیل
ڈاکٹر عبدالباسط
مذہبی حکومت(تھیوکریسی)، آمریت، ملوکیت، جمہوریت، سیکولرزم، کیپٹلزم،اور سوشلزم میں سے کونسا نظام اسلام کو مطلوب ہے؟ میرے فہم اسلام کے مطابق کوئی بھی نہیں۔ ریاست کیا ہے؟ یہ مذکورہ بالا نظاموں میں سے کسی نظام کا نام ہے یا کسی ایک کی ناکامی کے بعد نئے بت تراشنے کی جستجو ہے۔ مجھے معلوم ہے مملکت خداداد پاکستان میں مذکورہ بالا تمام نظاموں میں سے ہر نظام کے کم یا زیادہ حامی موجود ہیں۔ اوراسی طرح ناقدین ومخالفین بھی موجود ہیں۔ ہر فرد پھر اپنے ذوق کے مطابق تائید وتردید کی راہ اپناتا ہے۔ اگرچہ اصل سوال یہ ہے کہ اسلام کا نظام حکومت وسیاست اورطرز حکمرانی کیا ہے؟ اس سوال کے جواب بہت سے لوگوں نے دیے ہیں۔ اس لیے میرا جواب بعض جہات سے ماقبل مصنفین یا معاصر مفکرین سے مماثلت ضروررکھے گا اوراصولی طورپر منفرد وممتاز بھی ہوگا۔ وہ اس لیے کہ میرے نزدیک اسلام کا نظام حکومت اصولی طورپر ایک ہی نظریے پر قائم ہے لیکن طرز حکمرانی کی صورتیں جداجدا ہوسکتی ہیں۔ ان مختلف صورتوں کی بنیاد اسلام کے سیاسی نظام کے اصولی نظریہ پر ہے تو یہ سب اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہیں اگر ان کی بنیاد اصولی طورپر اسلامی نظریہ کے خلاف ہے تو یہ سب بظاہر کامیاب بھی ہوں تو زوال پذیر اورسراب ہیں۔
کوئی بھی ریاست نہ تو علماء کی مشاورت کے بغیر صحیح چل سکتی ہے اورنہ ہی سربراہ حکومت یا ریاست کی غیر موجودگی میں نظم قائم رہ سکتا ہے۔ نہ تو افواج کے بغیر انتشار وفتنہ فساد سے بچا جاسکتا ہے نہ ہی عوامی رائے کے خلاف شخصی فیصلے بقا کے ضامن ہوسکتے ہیں۔نہ تو اقلیتوں کے حقوق دبانے سے امن قائم ہوسکتا ہے اورنہ ہی شخصی آزادی اورلین دین کے معروف اصولوں پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ نہ تو فرد کو ملکیت سے محروم کیا جاسکتا ہے اورنہ ہی محروم طبقہ کے حقوق کے استحصال کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ جب قلم، تلوار، فکروعمل، مال واسباب کسی بھی چیز کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تو نظام میں توازن کے بغیر کیسے اسے مستحکم قراردیا جا سکتا ہے یا اس سے فلاح کی امید رکھی جاسکتی ہے؟توازن پیدا کرنے کا سب سے سنہری اصول جو اسلام نے دیا وہ ”تصور خلافت”ہے۔ نظام حکومت کی ہر شکل اسلامی نظام کے طرز حکومت میں بدل سکتی ہے اگراسے ”تصورخلافت”پر استوار کیا جائے۔ دراصل ”تصور خلافت ”ہی انسان کو مسلمان بناتا ہے جب وہ خود کو مطلق العنا ن سمجھنے کی بجائے خدائے بزرگ وبرتر کے سامنے سرنگوں ہوجاتا ہے اوراس نظام کو قبول کرلیتا ہے جو نظام اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس تک پہنچایا ۔
اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے تو حکومت کی کوئی بھی صورت حد سے تجاوز نہیں کرتی اورحدوداللہ کی پاسداری ہی فلاح کی ضامن ہوتی ہے اور ایسا نظام کوئی بھی اورنام یا اصطلاح قبول نہیں کرتا بلکہ اسے” اسلامی نظام خلافت ”ہی کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ علاقائی، جغرافیائی، قومی وبین الاقوامی حتیٰ کہ شخصی وقومی کسی بھی صورت میں پنپ سکتا ہے اورکامیابی سے معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔ اگر ایسانہ ہو تو ترجیحی بنیادوں پر ہمیں خود یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مروجہ نظام کے ساتھ بطور مسلمان کیسے چلاجائے؟
Tags/Keywords:
Islamic Caliphate System, modern interpretation, formation of government, religious government, caliphate, Dr. Abdul Basit, Islamic political theory, caliphate and democracy, Islamic governance model, Islam and government, theocracy, dictatorship, monarchy, secularism, capitalism, socialism, state and Islam, concept of caliphate, Islamic state, fundamental theory of caliphate
اسلامی نظام خلافت, جدید تعبیر, تشکیل حکومت, مذہبی حکومت, خلافت, ڈاکٹر عبدالباسط, اسلامی نظریہ سیاست, خلافت اور جمہوریت, اسلامی طرز حکمرانی, اسلام اور حکومت, تھیوکریسی, آمریت, ملوکیت, سیکولرزم, کیپٹلزم, سوشلزم, ریاست اور اسلام, خلافت کا تصور, اسلامی ریاست, اصولی نظریہ خلافت


Leave a Reply