وائل حلاق کی فکر کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر عبدالباسط

کیا وائل حلاق نے فقہ اسلامی سے حقوق اہل الذمہ (اقلیتوں کے حقوق)کی تفصیل بیان کی(پڑھی) یا محض عصر حاضر میں جدید ریاستوں میں بالخصوص اسرائیل ویورپ میں اقلیتوں کی صورتحال دیکھ کر اسلامی قانون کو برتری دی اورعہد بنوعباس / بنو امیہ کو بہتر قراردیا؟ یہاں بطور اقلیت رہنے کو ہی ترجیح کیوں دی؟ قبول کرنے میں کیا حرج ہے؟ نیز کیا یہ درست ہے کہ جدیدیت کے رد کے لیے محض اسلامی قانون کے تاریخی حوالوں کو استعمال کیا؟ یعنی محاسن اسلام سے حقیقتا اسے کوئی دلچسپی  بطور الہامی دین نہیں ہے۔؟ قرین قیاس یہی ہے کیونکہ   اگر اسے محاسن اسلام میں حقیقتا دلچسپی ہوتی اورتعلیم اسلام کے حق ہونے کا یقین ہوتا تو وہ عیسائی رہنے کی بجائے مسلمان ہونے کو ترجیح دیتے ۔جبکہ انہوں نے عیسائیت میں ان مسائل کا حل تلاش نہیں کیا۔ بلکہ اسلام میں تلاش کیا۔ گویا عملی طورپر اسلام ہی واحد دین ہے جو حق اورراہ راست کا علمبردار ہے تو غیر مسلم رہنے کا کیامعنیٰ ؟ اورمیں نے ذاتی طورپر بھی انہیں اسلام کی دعوت دی تھی۔ لیکن انہوں نے نظر انداز کردیا جس سے واضح ہوا کہ ان کا مقصد خدمت اسلام نہیں اورنہ ہی اسلام کی حقانیت واضح کرنا ہے۔ بلکہ جدیدیت کے خلاف اسے استعمال کرنا ہے۔

کیا وائل حلاق قانون حدودوتعذیرات کی تفصیلات سے مکمل طورپر آگاہ ہیں ؟ ہماری رائے میں ان کی جزئیات اورجدید ریاست کے منتخب قانون سے تقابل وتجزیہ کی حد تک مخصوص قوانین سے آگاہ ہیں ۔مکمل تفصیلات فقہی کتب سے بیان نہیں کیں۔

کیا وائل حلاق کسی محدث کی مکمل کتاب /کتب/اصول الحدیث کے مکمل مباحث سے آگاہ ہیں؟ ہماری رائے میں  وہ استشراقی تناظر میں  نئی متغیر فکر تاریخ اسلام کے منتخب واقعات سے مستنبط کرتے ہیں۔سیرت، حدیث اورفقہ کے موضوعات کو گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ جیسے خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا معاملہ اور تصورسنت کا استنباط !  مگر محدثین  کے مناہج واسالیب /ابحاث حدیث کی تفصیلات اوراصول الحدیث سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے۔

کیا وائل حلاق نے فیملی لاء،پراپرٹی لاء اوردیگر تمام جہات سے فقہ اسلامی کی تفصیلات اورجدید ریاستی قوانین کی تفصیلات کا تقابل وتجزیہ کیا ہے۔ یا محض مخصوص قوانین پر استعماری اثرات کے تناظر میں تبصرہ کیا ہے ؟ ہماری رائے میں  محض ان چند ممالک کے قوانین کی مثالیں پیش کی ہیں جن پر استعماریت کے اثرات نمایاں ہیں۔ نیز جدیدیت کے رد میں مخصوص ومنتخب تبصرہ پیش کیا ہے ،مکمل تفصیلات سے آگاہ نہیں ہیں۔

کیا قانون وقف سے متعلق وائل حلاق کے مباحث قابل بھروسہ ہیں نیز کیا تاریخی ارتقاء میں مدرسہ/مکتب فکر کے تعلیمی ماحول سے متعلق ان کی آراء /تفصیلات قابل بھروسہ ہیں؟ ہماری رائے  یہ ہے کہ اس سلسلہ میں انہوں نے استشراقی نقطہ نظر سے استفادہ کرتے ہوئے ذاتی استدلال سے تفصیلات مرتب کی ہیں۔

عہد اول میں اسلامی نظام قانون کے کورٹ سسٹم کی تفصیلات کا وائل حلاق کا مصدر کیا ہے؟ کیا یہ حقائق درست ہیں یا استشراقی نقطہ نظر کی روشنی میں جدید قانونی وعدالتی تناظر میں وائل حلاق کا ذاتی تبصرہ وتجزیہ ہے؟ ہماری رائے  یہی ہے کہ یہ وائل حلاق کا ذاتی تبصرہ وتجزیہ ہے۔

Tags/Keywords:

Wael Hallaq, critique, Islamic jurisprudence, minority rights, Abbasid Caliphate, Umayyad Caliphate, modern states, Israel, Europe, Islamic law, historical references, modernity, divine religion, Christianity, invitation to Islam, boundaries and punishments law, comparative analysis, jurisprudential books, hadith scholarship, Islamic traditions, Islamic family law, property law, colonial influence, legal analysis, waqf law, educational environment, Orientalist perspective, personal reasoning, early Islamic legal system, court system, personal commentary.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending