وائل حلاق کے ”تصور شریعت ”کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر عبدالباسط

Baist.zafar@vu.edu.pk

شریعت کاجو مفہوم وائل حلاق بیان کرتے ہیں۔ اس کے دوپہلو ہیں۔ ایک پہلو کے اعتبار سے وہ فقہ اوراسلامی قانون کوشریعت قراردیتے ہیں اورفقہی ارتقاء کو شریعت کاتدریجی ارتقاء سمجھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ جوزف شاخت سے فارمیٹو پیریڈ کے وقت کی تعیین میں اختلاف کرتے ہیں جبکہ دیگر مستشرقین سے مصادر شرع کی ٹرانسفارمیشن کے عمل کی تفصیل میں اختلاف کرتے ہیں۔ اصول الفقہ کی تفصیل اورمصادرشریعت کی تفصیل میں روایتی مسلم فکر سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار اوراسلامی قانون کی تاریخی دستاویزات وعدالتی پروسیڈنگز سے متعلق بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔ بطورشارع مفتی کے کردار کی اہمیت واضح کرتے ہیں اوراس سلسلہ میں ہونیوالی بتدریج تبدیلی پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔ سیاست  وحکومت کے کردار کوبھی واضح کرتے ہیں اورپھر جدیدریاست میں فقہ اسلامی کے جزوی تصور سے ریاست کی بے اعتنائی کی وضاحت کرتے ہیں اسی لیے اسے غیر موثر بھی قراردیتے ہیں اور اس کی عملی تشکیل کے لیے نئے علم الکلام اورنئی اصطلاحات اورنئے اخلاقی کلی نظام حیات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اس حقیقت کے معترف بھی ہیں کہ مغرب میں شریعت کا جومفہوم میڈیا کے ذریعے سمجھایا جاتا ہے یااکثر کتب میں پایاجاتا ہے وہ درست نہیں ہے۔مذکورہ بالاسارے عمل میں فقہ اسلامی یاشریعت یااسلامی قانون کو وہ انسانی کاوش قراردیتے ہیں۔ قرآن کے بارے میں ان کاتصور،حدیث اورسنت کے بارے میں حلاق کی فکر مسلم روایت سے جدا ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر مستشرقین سے بھی الگ ہے۔

دوسرے پہلو کے اعتبار سے وہ شریعت کا تعلق جب معاشرت ،معیشت، تہذیب وثقافت، رسوم ورواج(عرف)ا ورسیاست سے جوڑتے ہیں تو شریعت کا ایک جامع ومانع تصور سامنے آتا ہے۔ اس تصور کو ایک تو وہ انسانی ارتقائی عمل قراردیتے ہیں دوسرا جدیدقومی ریاستی تصورات واستعماری اثرات کے متضاد سمجھتے ہیں۔ اورمستقبل میں ان مسائل سے نکلنے کی کوئی خاطر خواہ تجویز  دینے سے بھی قاصر ہیں۔ حلاق کی پوری فکر میں چند باتوں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے جبکہ اکثرمباحث غلط فہمیوں کا مجموعہ ہیں۔ ذیل میں ایک گرافیکل شکل میں حلاق کے نظریات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے:

نمبر شمارنظریہحوالہتجزیہ /تنقید
 فقہ، اسلامی قانون، شریعت  بطورمترادفاتSharia, Theory, Practice and TransformationAn introduction to Islamic lawThe origins and evolution of Islamic lawعموم وخصوص کے اعتبار سے ، کلی اورجزوی مفہوم کے اعتبارسے فرق ہے۔ایک پہلو کے اعتبار سے ”شریعت” ہی سب کچھ ہے اورفقہ میں جب تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق احکام شرع زیربحث ہوں تو ”فقہ وشریعت”ایک ہی چیز ہے۔ جبکہ دوسرے پہلو کے اعتبارسے علوم اسلامیہ کی تقسیم کی جائے تو  ”شریعت” کلی اورعمومی مفہوم رکھتی ہے جبکہ ”فقہ” جزوی وخصوصی مفہوم کی حامل ہے۔  اصل کے اعتبار سے فقہ یا اسلامی قانون”شریعت”کا جزو ہے۔ شریعت منزل من اللہ ہے۔ فقہ ، فہم شریعت ہے۔
 فقہ، اسلامی قانون یا شریعت   کی تدوین وترویج ”انسانی کاوش ”ہے۔ یہ تاریخی وتدریجی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ انسانی کاوش: اس کی تفصیلات میں وائل حلاق اوردیگر مستشرقین کے افکار میں فرق پایا جاتا ہے۔ تاریخی وتدریجی ارتقائی عمل: اس کی تفصیلات میں  بھی وائل حلاق اوردیگر مستشرقین کے افکار میں فرق پایا جاتا ہے۔ایضا History of Islamic Legal Theories.شریعت الہامی کلام ہے۔ فقہ یا اسلامی قانون ”فہم شریعت”ہے۔”نزول، فہم اورتدوین شریعت”ایک تدریجی عمل ہے۔ نزول شریعت  کی تکمیل عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوئی۔ ”تدوین قرآن”کی تکمیل عہد صحابہ میں ہوئی۔”تدوین حدیث”کی تکمیل عہد تابعین میں ہوئی۔ ”فہم شریعت” کا عمل آج تک جاری ہے۔ ”عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم”نزول شریعت،تدوین شریعت اورتفہیم شریعت”تینوں عوامل کا جامع وکامل عہد ہے۔
 اصول الفقہ یا مصادرشرع  کے نظریات بتدریج پروان چڑھے: حلاق کے مطابق عہد نبوی میں ارتقاء کا محض آغاز ہوا۔کچھ بھی مکمل نہیں ہوا۔تین مصادر شرع واضح تھے جبکہ اسلامی قانون یا فقہ کے عملی پہلو مبہم تھے اسی طرح اصول الفقہ کے نظریات کا وجود بھی نہیں تھا۔ قرآن وسنت کا تصور موجود تھا۔ لیکن تدوین نہیں ہوئی تھی۔ دیگر مصادر یا اصول الفقہ کی تفصیلات مسلم روایت سے بالکل جدا ہیں۔ استشراقی تصور سے قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ایضایہ تمام نظریات دیگر مستشرقین سے قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ ان سب کی تفصیلات اسلامی تصورات سے جدا ہے۔ خودساختہ تاریخی تجزیے کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔
 اسلامی قانون یا فقہ کا پولیٹیسائیذڈ ہونا: ماقبل جدیدیت: قانون وقف کے ذریعے مابعد جدیدیت: استعماری اثرات کے ذریعےایضا Impossible Stateاہل علم کی تاریخی روایت سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ یہ محض ایک الزام ہے۔ ایسا کرنے کی کوشش ہوتی رہی ،ابھی بھی کی جارہی ہے لیکن ”فقہ اسلامی ”اپنی انفرادیت کے ساتھ ابھی بھی موجود ہے۔ استعماریت کے اثرات وسیاسی مداخلت سے بچنے کے لیے ”فقہی ارتقاء”ماضی اورحال میں  مقتدرطبقات کے مزاج کودیکھتے ہوئے ، آزادانہ علیحدہ حیثیت سے اپنی بقا وارتقاء کو جار ی رکھے ہوئے ہے۔ نیز فقہ ،فقہ ہے اورشریعت ،شریعت ہے۔ اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حلاق کی فکر میں غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ نیز مسلم جدید ریاستوں میں فقہ اسلامی اورشریعت اسلامیہ کے ساتھ جو رویہ اپنا یا جارہاہے اس کے مطابق انہوں نے ذاتی فہم سے نتیجہ اخذ کیا ہے۔ جو حقائق کے برعکس ہے۔ چونکہ جدید مسلم ریاستیں نفاذ شریعت کی نہ تو دعویدار ہیں نہ ہی علمبردار،بلکہ یہ جمہورامت کا دعویٰ ہے کہ جدید مسلم ریاستوں میں شرع کا نفاذ ہو۔ تاکہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں عملی طورپر شرع واضح ہو۔ جہاں تک جدید مسلم ریاستوں کی عدالتوں اورقانونی اداروں کا تعلق ہے تو حلاق کا تجزیہ قابل تحسین ہے۔ اس لیے ہم نے فقہ، شریعت، اسلامی قانون اورمسلم ریاست(مسلم قانون) میں جدید دور کے تناظر میں فرق بیان کیا ہے۔ بعینہ جیسے ہمارے ہاں مسلم سائنس اوراسلامی سائنس میں فرق پایا جاتا ہے۔
 جدیدریاست میں شرع کا نفاذ یا حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست کا قیام ممکن نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دونوں تصورات کا باہم متضاد ہونا ہے۔ایضااس سلسلہ میں وائل حلاق کا موقف کافی حد تک قابل غور اوراثرانگیز ہے۔ دونوں کی ڈومینز سے سب کچھ بالکل واضح ہے اورحلاق کا مقدمہ وموقف درست نظر آتا ہے۔ لیکن اس مسئلہ کے حل کی تجاویز نامکمل وناقص ہیں۔ جدیدریاست اسلامیہ کی عملی تشکیل  کا بیانیہ دوبنیادوں پر قائم کیا جاسکتا ہے۔ فکری بنیادوں پر اسے عالمی تناظر میں سمجھا جائے۔عملی بنیادوں پر اسے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مواخات ومیثاق کے اقدامات کی روشنی میں حل کیا جائے۔
 جدید ریاست اورشریعت میں تناقض کی صورتیں اوراسباب۔ایضا https://www.youtube.com/watch?v=70kg8X_A24sحلاق کے نقطہ نظر کے مطابق جدید ریاست کی سینٹرل ڈومین ”پاور”ہے۔ جبکہ  شریعت کی سینٹرل ڈومین”انسان”ہے۔ اسی طرح اسلامی ریاست کی سینٹرل ڈومین ”شریعت”ہے۔ ان سب مباحث میں وائل حلاق سے جزوی طور پرمدلل اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن عصری اطلاقی پہلووں کو مدنظر رکھا جائے تو وائل حلاق کا تجزیہ مبنی بر حقیقت ہے۔

Tags:Wael Hallaq, Concept of Sharia, Critical Analysis, Dr. Abdul Basit, Islamic Law, Fiqh, Sharia, Islamic Jurisprudence, Islamic Studies, Orientalists, Joseph Schacht, Sources of Islamic Law, Principles of Islamic Jurisprudence, Islamic Legal Theory, Modern State and Sharia, Evolution of Fiqh, Sharia in Modern Times, Islamic Legal History, Sharia and Modernity, Media Representation of Sharia

4o

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending