خلاصہ سانحہ کربلا از ڈاکٹر اسرار احمد
ڈاکٹر اسراراحمد کا مکمل لیکچر یوٹیوب پر موجود ہے۔ جس کا خلاصہ سر ذاکر الہاشمی صاحب نے ارسال کیا
آغاز فتنہ حضرت عثمان کے آخری دوسالوں میں
ذمہ دار : عبداللہ بن سبا یہودی
ایرانیوں نے حضرت عمر پر حملہ کروایا
یہودیوں نے عبداللہ بن سبا کے ذریعے شازش کی
شیعہ کے بنیادی عقائد خلافت بلافصل ، علی اللہ اور تمام شیعی عقائد کابانی یہی ہے
حسین وسادہ رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین۔۔۔
یہ شعر غلط ہے اگر اقبال ہوتا تو میں بتاتا
نہایت اس کی عثمان ابتدا ہے قابیل
شہادت ذوالنورین سے لے کر واقعہ کربلا تک تمام فتنوں کا ذمہ دار ابن سبا اور اس کے حواری ہیں
حضرت معاویہ کا شمار خلفائے راشدین سے نہیں لیکن خلافت راشدہ کے بعد
ایسا مکمل پر امن اور فتوحات سے بھر پور کوئی دوسرا عہد نہیں
جب امام حسن خلیفہ بنے تو چالیس ہزار کے لشکر کے ساتھ نکلے کرفیوں نے بے وفائی کی اور امام حسن کو کسری کے محل میں پناہ لینی پڑی مجبور ہو کر حضرت معاویہ سے صلح کی
اس کے بعد حامیوں نے آپ کو یا مذل المؤمنین اور یا عار المؤمنین کاخطاب
تاہم وہ صحابہ سے خطا کے امکان کے معتقد ہیں
وہ کہتے ہیں نہ علی کا قصور نہیں معاویہ یا یہ سب سبائیوں کا کام تھا
جو روز اول سے اسلام کے خلاف تاک میں تھے
امام حسن کو زہر حامیوں نے دیا
یزید کی ولی عہدی کا مشورہ مغیرہ بن شعبہ نے دیا جو سراسر نیک نیتی پر مبنی تھا وہ اصحاب شجرہ سے تھے
5 کو چھوڑ کر اکثر امت نے صحابہ سمیت یزید کی بیعت کرلی وہ سب بے ضمیر نہ تھے
حضرت حسین نے assessment میں غلطی کی کہ کوفہ جانے کو ترجیح دی باوجود یکہ ابن عمر ابن عباس ابن زبیر منع کر رہے تھے
جب راستے میں مسلم کی شہادت کی خبر ملی تو واپس آنا چاہتے تھے مگر آل عقیل نے نہ آنے دیا کی عربی عصبیت کے پیش نظر بدلہ لینا چاہتے تھے اس لیے کربلا روانہ ہوے
حضرت حسین سے دوسری سٹریٹجیکل غلطی یہ ہوئی کہ یزید ی لشکر کے سامنے خطوط کا نام لے کر اظہار کیا اب کوفی سرداروں نے ابن سعد(جو خواہ مخواہ بدنام کردیا گیا )
پر دباؤ ڈالا کہ قتل حسین کے علاوہ کوئی صورت قن
قبول نہ کرنا اور خیموں کو جلایا تاکہ وہ خط جل جائیں اور یزید کوفیوں کو سزا نہ سے
یوں یہ حادثہ فاجعہ پیش آیا
حسین کے اقدام میں کوئی نفسانیت اور ذاتی غرض نہ تھی
ڈاکٹر صاحب نے ابتدا تاانتہا مقدمہ خوب بیان کیا
تمام پہلو اسباب تاریخی حوالے پیش کیے
جو میں سمجھا ہوں ڈاکٹر صاحب کے نزدیک
امام سے خطا ہوئی باقی امت حق پر تھی اور وہ یزید کے ساتھ تھی
ابن عمر اور ابن عباس اور عبدالرحمن بن ابی بکر نے بھی خلافت پر اس ملوکیت کو مصلحتا ترجیح دی اگرچہ وہ اسے درست نہ سمجھتے تھے
ڈاکٹر صاحب جب موجودہ صدی میں خلافت کے سب سے بڑے حامی ہیں پھر وہ ملوکیت کی کیسے حمایت کر سکتے ہیں
مودودی صاحب نے مقصد شہادت یہ قرار دیا کہ خلافت ملوکیت میں بدلنے کا آغاز یزید سے ہوا اور امام کی نگاہ بصیرت نے اس کا مشاہدہ کیا اور کچھ پرواہ کیے بغیر اس کے خلاف نکلے
سارے مقدمے میں حضرت معاویہ اور یزید پر اسرار صاحب کو کچھ اعتراض نہیں
بلکہ وہ کہتے ہیں
جس شان سے حضرت علی نےجمل کے اختتام پر حضرت عائشہ کا قافلہ روانہ کیا اسی طرح یزید نے اہل بیت کا قافلہ روانہ کیا۔
مذکورہ بالا خلاصہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے جوآراء پیش کیں ان کاخلاصہ حسب ذیل ہے:
یزید ایک متنازع ومنفی کردار کی حامل شخصیت ہے۔ متنازع اس لیے کہ صحابی کابیٹا ہے اوراصحاب نے اس کی ولی عہدی پر سکوت اختیارفرمایا۔اورقسطنطنیہ پہ حملہ آور پہلے لشکر میں شامل تھا۔ منفی کردار اس لیے کہ امام حسن کی شہادت سے لے کر امام حسین کی شہادت تک نیز بعدازشہادت امام حسین واقعہ حرہ کے وقوع پذیر ہونے میں اس کاذاتی کردار بالکل واضح ہے۔ اسے بری الذمہ قرارنہیں دیاجاسکتا۔ اگرچہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ میں بنیادی کردار کوفی خود تھے۔ ڈاکٹر اسرارصاحب کاذاتی تجزیہ کافی دلچسپ ہے لیکن یہ بھی محض تاریخ اسلام کاایک عالمانہ جائزہ ہے یہ تجزیہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔
خلافت سے متعلق بحث ومباحثہ واختلاف الرائے کا اصل مسئلہ توعہد صدیق سے پیداہوگیا تھا۔ اس مسئلہ کوفتنہ کی شکل دینے اوراس کے فروغ میں کامیاب کردار عبداللہ بن سبا ہے۔فتنہ سبا ئیہ ہی تاریخ اسلام کے ان دلخراش واقعات کااصل محرک قراردیاجاسکتا ہے۔ لیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ یزید کااس میں ذاتی طورپر کوئی منفی کردار نہیں ہے یاوہ بری الذمہ ہے۔ بلکہ بعدازشہادت امام حسین اپنی حکومت کے قیام وبقا کے لیے اس نے مزید قتل عام بھی کیاخاص طورپر اہل مدینہ واصحاب کاقتل۔ اس کی کوئی وضاحت یزید کے حق میں حجت نہیں ہے۔ وہ تاریخ اسلام کا ایک منفی کردار ہے۔ یزید کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ پر طعن درست نہیں ہے۔ہمارے ہاں حضرت امیرمعاویہ کی وجہ سے یزید کادفاع یایزید کی وجہ سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پہ طعن کیاجاتا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔
لاتزروزرة وزر اخریٰ ہ
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ عہد عثمانی کے آخر میں جب فتنے اٹھنے لگے اس وقت اگر خلافت کوایک مرکزی ادارے کی شکل دے دی جاتی اورعلاقائی وقومی سطح پر ریاستیں اس مرکز خلافت کے ماتحت قائمکردی جاتیں تو تاریخ اسلام کچھ اورہوتی۔ اوریہ چونکہ انتظامی امور میں سے ہے اس لیے اس وقت کے منتظمین ہی درست فیصلے کرسکتے تھے کہ ایسا ناگزیر ہونے کے باوجود کیوں نہ کیا گیا؟شاید آج جس طرح ہم انتظامی سطح پر اس کی ضرورت واہمیت جاننے اورسمجھنے کے باوجود عملی اقدامات کرنے میں ناکام ہیں اس وقت بھی شورشوں اوربغاوتوں کی راہ کھلنے کاامکان موجود تھا۔ بہرحال تاریخ کے ان مسائل سے نکلنے کی کوئی حتمی شکل ابھی تک تجویز نہیں ہوسکی۔ نفس مسئلہ کوسمجھنے اوراس کے حل کی طرف آنے کے بجائے مسلمان بحیثیت مجموعی تاریخ کے جھگڑوں میں الجھ کر مزید مسائل وانتشار کاشکار ہوتے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالباسط
17.07.2024
Tags: Karbala, Islamic History, Imam Hussain (RA), Yazid, Caliphate, Shia-Sunni Relations


Leave a Reply